پاکستان کے متعلق قائداعظمؒ کی سیاسی بصیرت
- Get link
- X
- Other Apps
پاکستان کے متعلق قائداعظمؒ کی سیاسی
بصیرت
قائداظمؒ
نے اپنی سیاسی بصیرت اور دوراندیشی ومعاملہ فہمی سے قوم کو اپنے قدموں پر کھڑا کر
دیا اور مختلف اقدامات اٹھاکر خطرات کو دور کرتے ہوئے پاکستان کو سالمیت اور
استحکام دینے میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ قوم کو مایوسیوں سے نکال کر قائداعظم
نے پرُ اعتماد فضا فراہم کی۔
عظیم
قائد کو آزادی کے حصول کے بعد ایک سال اور ایک ماہ کام کرنے کا موقع اللہ پاک نے
دیا اور اس مختصر عرصے میں انہوں نے قوم کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا۔
1۔ مہاجرین
کی آبادکاری۔
قائداعظمؒ
نے جس مسئلے کی طرف فوری توجہ مبزول کرائی وہ مہاجرین کی آبادکاری کا مسلہ تھا۔
انہوں نے اپنا ہیڑکوارٹر کراچی سے لاہور منتقل کر دیا تا کہ وہ اپنے سامنے مہاجرین
کو آباد کرنے کے لئے بنائے گئے منصوبوں پر عمل کراسکیں۔ حکومت نے مہاجرین کی مدد
کے لئے اہل ثروت کو دعودت دی۔
قائداعظمؒ ریلیف فنڑ برائے مہاجرین
قائم کیا گیا۔ عوام نے بڑے کھلے دل سے ریلیف فنڑ میں رقوم جمع کرائیں۔ سماجی
تنظیموں کے کارکنوں نے کیمپوں میں آئے مہاجرین کے مسائل حل کرنے کہ کوشش کی۔
خوراک، کپڑے،دوائیں، خیمے، کمبل، اور دیگراشیا بہم پہنچائی گئیں۔
قائداعظمؒ
نے عوام کے حوصلوں کو ابھارا۔ انہیں قوتِ اردای اور ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ
کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے قوم کو
پُر
اعتماد رکھنے کے لئے مختلف جلسوں میں تقاریرکی۔ ایک بار فرمایا:
"تاریخ
میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ نوجوان قوموں نے اپنے کردار کی پختگی اور پکے
ارادے کی بدولت اپنے آپ کومضبوط بنایا۔ ہماری تاریخ بہادری اور عظمت کی داستانوں
سے بھری ہوئی ہے۔ ہمیں اپنے آپ میں مجاہدوں کی سی روح پیدا کرنی ہے۔"
بھارت نے
لاکھوں افراد کو پاکستان میں دھکیل کر سمجھا تھا کہ معاشی دباواور بحران پاکستان
کو لے ڈوبے گا لیکن پاکستانی قوم نے اپنے
قائد کی نصحیت پر عمل کرتے ہوئے مردانہ وار مقابلہ کیا۔ یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ
آنے والے طوفان کا سامنا کیا۔ دل گر فتہ مہاجرین کو رفتہ رفتہ گھروں میں بسایا گیا۔
پاکستان سے بھارت چلے جانے والے ہندوُں اور سکھوں کی متروکہ املاک مہاجرین کو الاٹ
کی گئیں۔ ان کے لئے روزگار کے زرائع پیدا کیے گئے۔ پاکستان کی انتظامی مشنیری نے
روایتی دفتر شاہی سے دوررہتے ہوئے عوام کے تعاون کے ساتھ مہاجرین کو آباد کیا۔
قائداعظیمؒ نے لاہور میں ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
"ہم پاکستانی عوام پریہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اُن مہاجرین کو بسانے کے لئے ہر ممکن امداد مہیاکریں جو پاکستان آرہے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ مسائل اس لئے درپیش ہیں کہ وہ مسلم قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔"
2۔ قومی خدمت کے لئے سرکاری ملازمین کو نصحیت ۔
قائداعظمؒ
نے 11 اکتوبر 1947ء کو سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"
ہمارے لیے یہ ایک چیلنج ہے۔ اگر ہمیں ایک قوم کی حیثیت میں زندہ رہنا ہے تو ہمیں
مضبوط ہاتھوں ان مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمارے عوام غیر منظم اور پریشان ہیں۔
مشکلات نے انہیں الجھایا ہوا ہے۔ ہمیں انہیں مایوسی کے چکر سےباہرنکالنا ہےاور ان
کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ اس وقت انتظامیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور
عوام اُس کی جانب راہنمائی کے لیے دیکھ رہے ہیں۔"
بڑے
نامساعد حالات تھے لیکن سرکاری افسروں اور دیگر ملازمین نے قومی جزبے اور اجتماعی
سوچ کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہوے قوم کی خدمت کی۔
انہوں نے
اپنے قائد کے فرمان کے مطابق عمل کیا اور قوم کو مسائل کے گرداب سے نکالا۔
قائداعظمؒ
نے سرکاری افسروں کو باربارتلقین کی کہ وہ آزاد قوم کے لئے کام کر رہے ہیں، انہیں
اپنے روزمرہ رویوں میں مثبت تبدیلی لانا چاہیے اور نئے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے
ہوئے قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ قائداعظمؒ نے سرکاری ملازمین کو اُن کے نئے کردار سے
آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اب حاکم نہیں بلکہ قوم کے خدمت گار ہیں۔
25مارچ
1948ء کو سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے یہ الفاظ ادا کیے۔
"آپ
اپنے جملہ فرائض قوم کے خادم بن کرادا کیجئے۔ آپ کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں
ہونا چاہیے۔ اقتدار کسی بھی جماعت کو مل سکتا ہے۔ آپ ثابت قدمی،ایمان اور عدل کے
ساتھ اپنے فرائض بجالائے۔ اگر آپ میری نصحت پرعمل کریں گے تو عوام کی نظروں میں آپ
کے رتبے اور حثیت میں اضافہ ہوگا۔"
3۔
صوبائیت اور نسل پرستی سے گریز
قائداعظمؒ
جانتے تھے کہ اگر پاکستانی عوام آنے والے سالوں میں صوبائیت پرستی نسل پرستی ذات
پات اور دیگر تعصبات میں الجھ گئے تو قومی یکجہتی کو بہت نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے
پاکستانیوں میں قومی یکجہتی کے فروغ اور باہم اتحاد کے قیام پرزوردیا۔ ان کی نصحیت
تھی کہ عوام کو علاقائی، نسلی اور لسانی بنیادوں پرسوچنے کی بجائے قومی سوچ اپنانی
چاہیے۔ قائداعظمؒ نے ریاستوں اور قبائلی علاقوں کی اہمیت کے پیش نظرایک وزیر برائے
سٹیٹس وقبائلی امور بنایا۔ مختلف ریاستوں کے حکمرانوں سے رابطے کیے اور انہیں قومی
دھارے میں پورے طرح شامل ہونے اور پاکستانی رویہ اپنانے کامشورہ دیا۔
پاکستان
دشمنوں نے ملک خداداد کے قیام سے پہلے اور بعد میں بھی عوام میں گمراہ کن خبریں
پھلائیں۔ انہیں باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان کمزور ہونے کے سبب زیادہ دیر
قائم نہیں رہ سکے گا۔ عوام میں علاقائی، صوبائی اور لسانی تعصبات کو ہوادی گئی۔
مایوسی اور لاتعلقی کی فضا بنانے کی گمرہ کن کوششیں بلاآخر ناکام ہوگئیں۔
قائداعظمؒ کس سربراہی میں پاکستانی عوام نے قومی جزبوں کو ابھارے رکھا اور دیگر
تعصبات کو کوئی اہمیت نہ دی کیونکہ عوام کو پاکیستان دشمن عناصر کے عزائم سے
قائداعظمؒ نے بروقت باخبر کردیاتھا۔ انہوں نے پاکستانی عوام کو واضح کردیاکہ اُن
کی قوت اتحاد میں ہے۔ وہ جب تک متحد اور یکجا رہیں گے، کوئی قوت انہیں نقصان نہ
پہنچا سکے گی۔ اتحاد،تنظیم، یقین محکم کانعرہ اسی حوالے سےقائداعظمؒ نے اپنی قوم
کودیا تھا۔
4۔ معشیت
کے لیے راہنما اصول
لاکھوں
افراد کا نقل مکانی کرنا،قتل وغارت،لوٹ مار،کشمیر میں جنگِ آزادی، انتظامی مشینری
کے مسائل 1948ء کے سیلاب اور بھارت کی طرف سے پاکیستان کو اثاثوں میں جائزحصہ نہ
ملنا، بے روزگاری اور غربت، یہ سارے عناصر قوم اور اُس کے قائد کے لیۓ بہت بڑا
چیلنج تھے۔ بھارت جان بوجھ کرپاکیستان کی معشیت کو تباہ وبرباد کرنے کےدرپے تھا۔
افراتفری اور معاشرتی توڑ پھوڑ پاکیستان کے معاشرتی حالات کو بہتر بنانے کی راہ
میں رکاوٹ تھی۔ ایسے حالات میں قائداعظمؒ ملک کی معشیت کو سنبھالا دینے، اسے اپنے
قدموں پر کھڑا کرنے اور عوام کی مشکلات کو دور کرنے کے لیۓ پورے عزم کے ساتھ آگے
بڑھے
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment