پاکستان کی علاقائی زبان کشمیری

Image
  پاکستان کی علاقائی زبان کشمیری         کشمیری زبان ایک تحیقیق کے مطابق وادی سندھ کی زبان سے منسلک ہے۔ اس کے کئی مشہور لہجے ہیں جن میں مسلما نکی، ہندکی، گندورو، گامی زیادہ مشہور ہیں۔ معیاری وادبی لہجہ گندوروکو سمجھا جاتا ہے۔ کشمیری ادب کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 1۔ پہلے دور میں لوگ گیتوں کو فروغ ملا، اس قسم کی شاعری میں کشمیری سماج کی اجتماعی سوچ و احساس کا اظہار پایا جاتا ہے۔ اسے کشمیری لہجے میں رؤف ہا لول کہا جاتا ہے۔ 2۔ دوسرے دور میں الٰہیات کے موضوعات پر لکھا گیا۔ 3۔ تیسرے دور میں عشقیہ داستانوں کو منظوم کرنے کی روایت پڑی۔ حبہ خاتوں اس عہد کی اہم شاعرہ گزری ہیں۔ اس دور کے منظوم قصوں میں کشمیری کے علاوہ اہم فارسی و عربی قصوں کو بھی کشمیری لباس پہنایا ھیا۔ جن کے لیے ارمنی لال اور ملآ فقیروغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ 4۔ چوتھے دور میں کشمیری زبان وادب پر روحانی اثر غالب رہا جس کے روح رواں محمودگامی تھے۔ 5۔ پانچواں دور جدید ادب کے ذیر سایہ پلابڑھا۔ یہ اپنے اندر نئے فکری رجحانات رکھتا ہے۔ غلام احمد مہجور کو اس دور میں اہم مقام حاصل ہے۔ کشمیری ادب میں مقام...

پاکستان کی علاقائی زبان سندھی

 

پاکستان کی علاقائی زبان سندھی


 

سندھی پاکستان کی ایک قدیم ترین زبان ہے۔ یہ آریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور دریائے سندھ کی وادی اور اردگرد کے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ اس کے بولنے والوں کی تعداد ایک کڑوڑ سے کم نہیں۔ اگرچہ اس زبان پر دراوڑی، سنسکرت، یوانی، ترکی، ایرانی اور دیگر قدیم زبانوں اور ثقافتوں کے اثرات نمایاں ہیں۔ تاہم یہ عربی اور فارسی سے بھی کافی متاثر ہوئی ہے۔ انگریزوں کی آمد کے بعد انگریزی زبان کے الفاظ بھی سندھی میں شامل ہوئے جس کے باعث سندھی زبان کے ادب اور ذخیرہ الفاظ میں وسعت آئی۔ یہ زبان اپنے قدیم ثقافتی ورثے کے سبب پاکستان کی دیگر علاقوئی زبانوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہے اور یہ عربی کی طرح لکھی جاتی ہے۔ اس کے حروف تہجی کی تعداد باون ہے۔


صوبہ سندھ کے شمال جنوب وسیع علاقے میں سندھی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کی کئی لہجے ہیں۔ سندھی کے زیریں

اور راجستھانی علاقے میں لاڑی، کیچی، وچولی، کاٹھاواڑی اور عقدی کی بولیاں رائج ہیں۔ بلوچستان میں جدہ گالی، گنداوی، فکری، لاسی، کیچی نوری اور چینی کے لہجے بولے جاتے ہیں۔ جبکہ باقی علاقوں میں مستعمل بولیوں کوکوہستانی، سرائیکی اور وچولی کیا جاتا ہے۔ اس کا معیاری لہجہ (ساہتی) علمی، ادبی اور صحافتی نگارشات میں اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔


پوری مسلم دنیا کی مقامی زبانوں میں سندھی ہی واحد زبان تھی جس میں قرآن پاک کا پہلا ترجمہ کیا گیا۔ سندھی زبان اس علاقے میں اسلام کی آنے سے پہلے بھی ترقی یافتہ تھی اور سندھی لکھنے پڑھنے کا رواج عام تھا۔ بعد میں مسلمانوں کے آنے کے بعد عربی کے ساتھ ساتھ اس کو بھی مکمل طور پر اہمیت حاصل رہی ہے۔

1050ء سے 1350ء تک کے دور میں ادبی ودینی تخلیقات میں خاص طور پر کام کیاگیا۔ یہ سندھی کی ادبی تاریخ کا ابتدائی دور تسلیم کیا جاتا ہے جس میں حب الوطنی، عزم، خودداری اور روحانی عقائد کے موضوعات پر لکھا گیا۔ اس دور کی داستان، قصہ، گنان، ہیت، سورٹھے، گا تھا اور قابل ذکر اضناف ہیں۔ گنان شاعری کا ایک منفردانداز تھا۔ جس کو اسماعیلی مبلغین اسلامی عقائد کی تبلیغ کا ذریعہ بناتے تھے۔ انہی مبلغین نے 40 حرنی رسم الخاط بھی ایجاد کیا جسے میمن کی یا خوجکی خط کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس زبانے میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے صوقیا کرام نے بھی سندھی میں شاعری کے ذریعے اسلام کی تعلمیات پھیلائیں۔


اٹھارہویں صدی تک سندھی ادب میں شاہ عبدالطیف بٹھائیؒ اور سچل سرمستؒ جیسے عظیم شاعر اپنی بے نظیر شاعری سے سندھی ادب کو مالامال کر چکے تھے۔ اس دور کو سندھی ادب میں سنہری دور سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ نے عام زندگی اور غیرب و محنت کش طبقے کی زندگی کے گن گائے اور اس میں انسانی عظمت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے شاعری کی گونج سنائی دیتی ہے۔ "شاہ جورسالو" ان کی شاعری کا مجموعہ ہے۔ اسی دور کے ایک اور عظیم المرتیب شاعر عبدالوہاب المعروف سچل سرمست بھی ہیں۔ انہوں نے سندھی، اردو، سرائیکی، پنجابی اور فارسی میں شاعری کی۔ وہ صوفی صفت انسان تھے اور تصوف میں وحدت الوجودان کا مسلک تھا اور یہی ان کی شاعری کا معیار بھی ہے۔ وہ لوگوں کو توحید کا سبق دیتے تھے اور مجموعی طور پر ان کے اشعار کی تعداد نولاکھ کے قریب ہے۔


شاعری کے ساتھ ساتھ نثری ادب میں بھی اساتزہ، علماء اور مبلخین کی اجتماعی کوششوں سے بہت ساسرمایہ جمع ہو گیا۔ اس سلسلے میں ابوالحسن سندھی کی کوششیں نمایاں ہیں۔ انہوں نے سندھی کے لیے عربی رسم الخط کو بنیادبنا کر ایک نیارسم الخط تیار کیا۔ اس سلسلہ مین دوسرانام  مخدوم محمد ہاشم کا آتا ہے۔ ہو بہت بڑے عالم دین تھے انہوں نے فارسی اور سندھی میں قریبا 150 کتابیں لکھیں۔ جن کا موضوع اسلامی عقائد کی تصیح اور تشریح ہے۔ ان میں سے بعض کو آج بھی دینی مدارس اور مصر کی جامعتہ الازہر میں نصابی کتب کی حیثیت حاصل ہے۔ اس زمانے میں اخوند عزیز اللہ نے قرآن پاک کا نثری ترجمعہ کیا۔


سندھی زبان میں انگریزوں کے آنے کے بعد بہت ترقی ہوئی۔ اس دور میں مرزاقلیچ بیگ کا نام بہت اہم ہے۔ انہوں نے شاعری کے موضوعات پر کتابیں لکھیں اور دنیا کی کئی اچھی کتب کے تراجم کیے۔ آپ نے جغرافیہ، تاریخ، سوانح نویسی،لغت نویسی، گرائمر نویسی، تزکرہ نویسی، ڈرامہ جگاری، ناول نگاری اور تحقیق وغیرہ کے موضوعات پر قلم اٹھایا۔ آپ نے تقریبا 400 کے قریب کتابیں لکھیں۔


انگریزوں کے دام تسلط میں برصغیر کی سیاسی اور سماجی زندگی میں بہت اہم تبدیلیاں آئیں اور لوگوں میں شعور پختہ ہوا۔ اسی دور میں سندھی صحافت کو اہمیت اور فروغ حاصل ہوا۔ قرآن پاک کا منظوم ترجمہ مولوی ملاح نے 1970ء کے عشرے میں کیا۔ بیت، وائی، کافی، مولود سندھی کی مخوص شعری اصناف ہیں۔ جدید ادبی ر جحانات میں سندھی دوسری زبانوں  کے ساتھ ساتھ متاثر ہوئی۔ پاکستان کے معرضِ وجود کے بعد جدید افسانہ، ڈرامہ نگاری، ادبی تحقیق اور دوسرے علمی میدانوں میں خاصاکام ہواہے۔ جدید ادیبوں نے روایتی انداز کو جدید رجحانات سے ہم آہنگ کیا ہے اور تمام ترنثری اصناف کو جابخشی ہے۔ تحقیق وتنقید میں بھی نمایاں ترقی ہوئی ہے۔سندھی زبان کی ترقی کا ادارہ فعال کردار ادا کررہا ہے۔

 

Comments

Popular posts from this blog

9 January 2023 telenor questions

پاکیستان کے دستور میں اسلامی دفعات فیصل پی کے آر